2 دسمبر 2024 - 07:40
سعودی حکام نے دو مزید شہریوں کے سر قلم کردیئے / اس سال پھانسیوں کی تعداد 198 تک پہنچ گئی

سعودی عرب میں غداری اور دہشت گرد تنظیم سے تعاون کے الزام میں 2 سعودی شہریوں کو سزائے موت دیدی گئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سعودی حکام سیاسی مخالفتوں کو خاموش کرنے اور 2011 اور 2013 کے درمیان ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرنے والے شیعہ باشندوں کو سزا دینے کے لئے سزائے موت کا اوزار استعمال کر رہے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا | ذرائع کے مطابق، سعودی عرب نے اپنے 2 شہریوں محمد بن ظافر بن ثامر العمري اور عبدالله بن خضر بن عبدالله الغامدي کو سزائے موت دی۔ سعودی حکام نے بتایا کہ سعودی شہریوں پر مجرمانہ کارروائیوں کا ارتکاب کرنے کا الزام تھا جس میں اپنے ملک کے ساتھ غداری کرنا اور دہشت گرد تنظیم سے تعاون شامل ہے۔

اس کے علاوہ دونوں ملزمان پر مملکت کے اندر اور باہر دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنا، بدعنوانی، حملہ کرنے، سلامتی اور  استحکام میں خلل ڈالنے کے ارادے سے ہتھیار رکھنے کا بھی الزام ہے۔

سعودی وزارت داخلہ نے انکشاف کیا کہ ملزمان میں سے ایک نے اپنے گھر کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ میں تبدیل کر رکھا تھا جہاں وہ میل جول کرنے کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور گولہ بارود چھپانے اور  اپنی سرگرمیوں کے لیے مالی معاونت حاصل کرتے تھے۔

ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رپورٹ دی ہے کہ سعودی حکام نے 2024 کے آغاز سے اب تک 198 سے زائد افراد کو پھانسی دی ہے، جو کہ 1990 کے بعد سے اس ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔

سعودی حکام کی طرف سے پھانسی کی سزا میں کمی لانے کے بار بار وعدوں کے باوجود، اس طرح کی پھانسیوں میں نمایاں اضافہ ہؤا ہے، صرف اس سال منشیات کے الزام میں 53 افراد کو پھانسیاں دی گئیں، جبکہ 2023 میں صرف دو افراد کو اس الزام میں پھانسی ہوئی تھی۔

رپورٹ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ سعودی حکام سیاسی مخالفتوں کو خاموش کرنے اور 2011 اور 2013 کے درمیان ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کرنے والے شیعہ باشندوں کو سزا دینے کے لئے سزائے موت کا اوزار استعمال کر رہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل اگنیس کالمارڈ (Agnès Callamard) نے کہا، "سعودی حکام بے تحاشہ قتل کی مسلسل مہم چلا رہے ہیں، جس میں انسانی زندگی کو خوفناک انداز سے نظرانداز کرنے کا اظہار ہوتا ہے، جبکہ سعودی حکومت اپنی تصویر کو مثبت بنا کر پیش کرنے کے لئے کھوکھلی بیان بازی کی مہم کو فروغ دے رہی ہے۔"

کالمارڈ نے سزائے موت کو "خوفناک اور غیر انسانی سزا" قرار دیتے ہوئے سعودی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر پھانسیوں کا سلسلہ روک دیں اور سزائے موت کا سہارا لئے بغیر سزا یافتہ افراد پر بین الاقوامی معیاروں کے مطابق دوبارہ مقدمہ چلائیں۔

سزا‏ئے موت، سیاسی مخالفین کو کچلنے کا ہتھیار

سعودی حکمرانوں نے ـ حتی کہ ـ سعودی حکام نے آن لائن اختلاف رائے کو دبانے کے لئے بھی سزائے موت کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جولائی 2023 میں، 55 سالہ سبکدوش استاد محمد الغامدی، کے خلاف سوشل میڈیا پر پرامن سرگرمیوں کی وجہ سے سزائے موت سنائی گئی۔ اگرچہ اس سزا کو 30 سال قید میں تبدیل کر دیا گیا تھا، لیکن اس کا کیس اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ کس طرح ملک میں آزادی اظہار کو دبانے کے لئے سزائے موت کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔

ساتھ ہی، مبلغ سلمان العودہ اور شرعی محقق حسن فرحان المالکی پر مقدمات کی سماعت جاری ہے، کیونکہ استغاثہ واضح ثبوتوں کی کمی کے باوجود، غیر متعینہ دعوؤں کی بنیاد پر ان کے خلاف سزائے موت پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کر رہا ہے، چنانچہ ان پر ٹرائل میں بلا وجہ تاخیر کی جا رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110